
واشنگٹن: عالمی بینک سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا کوئی امکان نہیں صدر اجے بنگا:
عالمی بینک کے صدر اجے بنگا نے اپنے ایک انٹرویو میں واضح کیا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کی کوئی صورت موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس میں کسی بھی قسم کی معطلی کا کوئی جواز نہیں ہے۔
معاہدے میں تبدیلی یا خاتمہ باہمی رضامندی ضروری ہے:
اجے بنگا کا کہنا ہے کہ،
سندھ طاس معاہدہ کی کسی بھی قسم کی تبدیلی یا خاتمہ صرف فریقین کی رضامندی سے ہی ممکن ہے۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ورلڈ بینک کا کردار صرف ثالثی کا ہے، کوئی فیصلہ کن اختیار نہیں رکھتا۔
سندھ طاس معاہدہ کی تاریخ اور اہمیت:
یہ معاہدہ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا۔
یہ ایک تاریخی معاہدہ ہے جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دریاؤں کے پانی کی منصفانہ
تقسیم کرنا تھا تاکہ پانی کے مسئلے پر کوئی جنگ یا تنازعہ نہ ہو۔
پاکستان کے لیے پانی کی اہمیت:
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں فصلوں کی کاشت کا انحصار دریاؤں سے آنے والے پانی پر ہے۔
سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔
معاہدے کی ضرورت اور پس منظر:
1948 میں بھارت کی جانب سے مشرقی دریاؤں کا پانی بند کیے جانے کے بعد
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ اس صورتحال نے عالمی برادری کو متحرک کیا
اور بالآخر 19 ستمبر 1960 کو سندھ طاس معاہدہ طے پایا۔
پانی کی تقسیم اور حقوق:
اس معاہدے کے تحت انڈس بیسن سے ہر سال 168 ملین ایکڑ فٹ پانی پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا گیا۔
پاکستان کو ان دریاؤں سے 80 فیصد پانی، یعنی 133 ملین ایکڑ فٹ، حق دیا گیا ہے، جن میں
سندھ،
جہلم
اور چناب شامل ہیں۔
بھارت کو مشرقی دریاؤں جیسے راوی، بیاس اور ستلج پر کنٹرول دیا گیا ہے۔