
سیزیرین کی شرح میں اضافے کا سبب نجی اسپتالوں کا کاروباری رویہ اور ڈیجیٹل نظام کی تیاری:
سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن نے سیزیرین ڈیلیوری کے بڑھتے ہوئے رجحان کا اعتراف کرتے ہوئے اسے نجی
اسپتالوں کی منافع بخش پالیسی قرار دیا ہے۔ سی ای او ڈاکٹر احسن قوی کا کہنا ہے کہ اگر کسی
مریضہ کو محسوس ہو کہ اس کا آپریشن غیر ضروری تھا، تو وہ کمیشن میں شکایت درج کروا
سکتی ہے۔ کمیشن نے اپنے نظام کو 80 فیصد تک ڈیجیٹلائز کر لیا ہے، اور اگلے چھ سے ایک سال میں
مکمل ہونے کے بعد تمام سرکاری اور ریگولر لائسنس یافتہ اسپتالوں سے ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے ایک
مربوط نیٹ ورک قائم کرے گا۔ اس سے نہ صرف انفیکشنز جیسے ڈینگی، ملیریا، اور ایچ آئی وی کا
ڈیٹا جمع کیا جائے گا، بلکہ زچگی کے لیے اسپتال کے انتخاب میں بھی آسانی ہو گی، کیونکہ اگر اسپتال
سیزیرین اور نارمل ڈیلیوری کا ڈیٹا شیئر کرے گا تو یہ ویب سائٹ پر دستیاب ہوگا۔
ڈاکٹر احسن قوی نے بتایا کہ صوبے میں صحت کی سہولیات کا 65 فیصد نجی شعبے میں فراہم ہوتا ہے،
جبکہ صرف 35 فیصد سرکاری اداروں کے پاس ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ نجی اسپتال اکثر کاروباری
مفادات کی بنیاد پر چلائے جاتے ہیں، اور بعض اسپتال کے مالکان عوامی خدمت کے بجائے منافع کو
ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیزیرین کی شرح میں اضافے کی ایک اہم وجہ پہلے سے طے شدہ بکنگ
ہے، جو کہ بعض اوقات کاروباری مفادات کی نشاندہی کرتی ہے،
جبکہ ایمرجنسی کیسز میں سیزیرین ضروری بھی ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر احسن قوی نے یہ بھی واضح کیا کہ بعض گائناکالوجسٹ ایک رات میں کئی مریضہ کو لیبر میں
دیکھنے کے لیے سیزیرین کو ترجیح دیتی ہیں، اور مریضوں کو سمجھنا چاہیے کہ نارمل ڈیلیوری ایک
فطری عمل ہے، جسے ٹیم کی نگرانی میں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اگر کسی مریضہ کو
لگے کہ اس کا سیزیرین بلاوجہ کیا گیا ہے، تو وہ کمیشن سے شکایت کر سکتی ہے،
اور کمیشن اسپتال کی ان وجوہات کی چھان بین کرے گا۔
مزید برآں، ڈاکٹر احسن قوی نے اسپتالوں میں انفیکشن کنٹرول کو ایک اہم مسئلہ قرار دیا، اور کہا
کہ اسپتالوں میں انفیکشن سے بچاؤ کے لیے ایک خاص کمیٹی تشکیل دی جائے،
جو مانیٹرنگ، سیمپلنگ اور گائیڈ لائنز پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گی۔