
وفاقی بجٹ 2024-2025 کی پیش کش مؤخر، آئی ایم ایف سے تعلقات میں پیچیدگیاں:
بجٹ پیش کرنے کی تاریخ میں تبدیلی:
وزارت خزانہ نے پیر کو اعلان کیا ہے کہ مالی سال 2024-2025 کا وفاقی بجٹ 2 جون سے 10 جون تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔
اس تاخیر کی وجہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اہم بجٹ اعداد و شمار،
بشمول سبسڈی الاؤنسز، پر پیدا ہونے والے اختلافات ہیں۔
قومی اسمبلی کمیٹی برائے تجارت کا اجلاس:
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں، جس کی صدارت خورشید
احمد جونیجو نے کی، بجٹ کے اعداد و شمار میں ترمیم کے حوالے سے حکومت کو درپیش چیلنجز پر
بات چیت ہوئی۔ اس اجلاس میں جوائنٹ سیکریٹری (کارپوریٹ فنانس) سجاد اظہر نے بتایا کہ وزارت
خزانہ کو ابھی بھی بجٹ اعداد و شمار کو ہم آہنگ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی پروگرام کے تحت ہے،
جس کی وجہ سے بجٹ میں فنڈز میں تبدیلی محدود ہے۔
ٹی سی پی کی بقایاجات اور مالی مشکلات:
سجاد اظہر نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ پاکستان ٹریڈنگ کارپوریشن (ٹی سی پی) کے بقایاجات تقریباً
317.5 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں، جن میں سے 93.693 ارب روپے اصل رقم اور 223.797 ارب روپے
سود شامل ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ٹی سی پی نے درآمد شدہ گندم اور یوریا کی تقسیم ای سی سی کی
ہدایات کے مطابق کی، مگر ادائیگیاں 2010 سے زیر التوا ہیں۔
سود اور قرضوں پر اختلافات:
اس موقع پر سجاد اظہر اور ٹی سی پی کے چیئرمین سید رفیع بشیر شاہ کے درمیان سود اور تجارتی
بینکوں سے لیے گئے قرضوں کے حساب کتاب پر تنقید اور اختلافات بھی سامنے آئے۔
چیئرمین کا کہنا تھا کہ ٹی سی پی نے یہ ادائیگیاں وفاقی حکومت کی ہدایت کے مطابق کیں، مگر سجاد
اظہر کا موقف تھا کہ ای سی سی نے سود کی ادائیگی کی منظوری نہیں دی اور وزارت خزانہ نے
اس معاملے کو حل کرنے کے لیے متعدد ملاقاتیں کی ہیں۔
بینکوں سے سود کی شرح میں کمی کی درخواستیں:
اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے تجارتی بینکوں سے سود کی شرح کم کرنے کی درخواست بھی کی گئی،
مگر ایس بی پی نے وضاحت کی کہ چونکہ معاہدے تجارتی نوعیت کے ہیں، اس لیے رعایت دینا ممکن نہیں ہے۔
کمیٹی کا مطالبہ:
قومی اسمبلی کی کمیٹی نے وزارت خزانہ سے مطالبہ کیا کہ سبسڈی کی رقم میں اضافہ کیا جائے
تاکہ ٹی سی پی کو جزوی ادائیگی ممکن بنائی جا سکے۔