
غزہ میں امریکی امدادی نظام کا آغاز، عوام میں بے چینی اور بے نظمی:
نظام کے ابتدائی مراحل میں ہی مشکلات کا سامنا:
غزہ میں امریکہ کی معاونت سے شروع ہونے والے نئے امدادی نظام کے آغاز کے بعد عوام میں بے ترتیبی اور بدنظمی دیکھنے میں آئی ہے۔
ہزاروں فلسطینی تقسیم کے مقامات پر پہنچ رہے ہیں، مگر بدنظمی اور تشدد کے خوف کے سبب خوراک کی تلاش جاری ہے۔
جی ایچ ایف کے مراکز پر ہجوم اور رکاوٹیں*:
غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف)، جو ایک نجی تنظیم ہے اور جس کے پیچھے امریکہ کی حمایت
اور اسرائیلی اجازت شامل ہے، منگل سے اپنی خدمات شروع کر چکی ہے۔
تاہم، آغاز پر ہی ہجوم کے سبب رکاوٹیں ہٹانے کی کوشش کی گئی اور
نجی سکیورٹی عملہ کو پیچھے ہٹنا پڑا، جس سے صورتحال غیر یقینی بن گئی۔
امدادی مقام اور سرگرمیوں کی تفصیلات:
اسرائیلی فوجی ذرائع کے مطابق، جی ایچ ایف اب تک چار امدادی مقامات پر کام کر رہا ہے،
جن میں سے تین رفح کے جنوبی علاقے میں اور ایک نتصریم کے وسطی علاقے میں ہے۔
اس حوالے سے جی ایچ ایف نے فوری طور پر رائٹرز کو کوئی تصدیق کرنے سے انکار کیا ہے کہ آیا وہ
نتصریم میں بھی امدادی سرگرمیاں جاری رکھ رہا ہے یا نہیں۔
عالمی برادری کی تنقید اور فلسطینیوں کا شک وشبہ:
اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں نے اس نئے نظام کی کارکردگی پر کڑی تنقید کی ہے،
کیونکہ یہ اسرائیل کے گیارہ ہفتے طویل محاصرے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے
انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے ناکافی اور ناقص قرار دیا جا رہا ہے۔
فلسطینی شہریوں کی حالت اور امداد کی حالت زار:
اس نظام کے بارے میں فلسطینی عوام میں پھیلے ہوئے شک و شبہات کے باوجود، رفح کے قریب ایک مرکز پر
جانے والے 25 سالہ شخص وسام خدر نے بتایا کہ وہ منگل کے بعد سے اس مرکز پر جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے روز انہیں صرف 3 کلوگرام خوراک ملی جس میں
آٹا،
ٹن والی سارڈینز،
نمک، نوڈلز
اور بسکٹ شامل تھے۔
ان کا تین سالہ بیٹا بھی ان کے ساتھ ہے۔
نتیجہ:
نئے امدادی نظام کے آغاز کے باوجود غزہ میں صورتحال اب بھی غیر یقینی اور مشکل ہے،
اور عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے مزید موثر اور منظم اقدامات کی ضرورت ہے۔